پاکستان میں نئے صدر کی حلف برداری اور ستمبر کامہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نئے چیلنج سے دوچار ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی طیاروں کے حملے اور انسانی جانوں کے زیاں نے جہاں پاکستانی حکومت اور فوج کو امریکہ کے لئے تنبیہی لہجہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے وہاں امریکی اخبارات اور تھنک ٹینکس بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
سات سال پہلے گیارہ ستمبر کے حملوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گردوں کے خلاف تعاون پر مبنی جس پالیسی کا آغاز کیا تھا۔ امریکی ماہرین کے مطابق وہ اب ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہو گئی ہے۔ ۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں کے اندر امریکہ کے بغیر پائلٹ طیاروں نے سات میزائل حملے کئےہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ ان حملوں کو خطرناک مگر ناگزیر قرار دے رہا ہے،جبکہ امریکی تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ حملے پاک امریکہ تعلقات کی خرابی کی نشاندہی کر تے ہیں
مڈل انسٹی ٹیوٹ کے سکالر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ امریکی حملے پاک امریکہ تعلقات کی خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی افہام و تفہیم لازمی ہے۔ دونوں ملکوں کی فوج کو مل کر سوچنا ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہ واشنگٹن کو پاکستان کی پیرا ملٹری فورسز کی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر وہ کارکردگی دکھا سکیں گی جیسی موجودہ حالات میں درکار ہے۔ امریکہ اورنیٹو فورسز شدید مایوسی کا شکار ہیں کہ وہ افغانستان میں ہار رہے ہیں اور پڑوسی ملک میں پناہ لئے شر پسندو ں کو شکست نہیں دے پا رہے
واشنگٹن کے تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٰ ٹیوٹ کے تجزیہ کار مارون وائن بام سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اوردونوں ملکوں کی پارٹنر شپ کا خطرے میں پڑنا کسی فریق کے مفادمیں نہیں تاہم وائن بام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی سرداروں کو ترقیاتی کاموں میں دلچسپی نہیں اور ان سے یہ توقع کرنا کہ صرف مذاکرات کے ذریعے انہیں کسی معاہدے کا پابند بنایا جا سکتا ہے سراسر بیوقوفی ہے۔
مارون وائن بائم کہتے ہیں کہ میرے خیال میں امریکہ تیارہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت اور قبائلی علاقے کی قیادت کے درمیان مذاکرات کئے جائیں مگر میرے خیال میں اب تک پاکستان کے بعض سیاسی حلقے بڑی سادگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف مذاکرات کے ذریعے بیت اللہ محسود اور فضل اللہ جیسے شدت پسندوں کوکسی معاہدے کا پابند بنایا جا سکتا ہے جو پاکستان کی سالمیت اور قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے تحفظ کی ضمانت دے گا۔ -مجھے خدشہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے زیادہ تر قائدین یا سرداروں کو ترقیاتی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ صرف ایک مخصوص ایجنڈے کو پھیلانا چاہتے ہیں جو میرےخیال میں پاکستان کے زیادہ تر رہنے والوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا
پاکستان اور اس کی فوج پر Crossed swordsکے نام سے کتاب لکھنے والے مصنف شجاع نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومت نئی ضرور ہے مگر پالیسیاں مشرف دور کی ہی چل رہی ہیں۔ جبکہ امریکہ کے حوالے سے پالیسی پر قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے
وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ مشرف پالیسی جیسے چل رہی تھی وہی اب بھی جاری ہے۔ اس وقت بھی یہی ہوتا تھاکہ امریکہ حملہ کرتا تھا۔ پاکستان اس کی مذمت کرتا تھا۔ اور بھول جاتے تھے۔ اگر گورنمنٹ ایسے کرے گی تو ظاہر ہے کہ عوامی حمایت اور بھی کم ہو جائے گی۔ آپ کو چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ مل کر بیٹھ کر کوئی اور طریقہ اختیار کریں کہ یا تو آپ جوائنٹ آپریشنز کریں۔ مگر اس سے پہلے قوم کو ساتھ لیں۔ قوم کے ساتھ کھل کر بات کریں۔ اسمبلی میں بحث ہوکہ کیا پاکستان کا رد عمل ہونا چاہئے اور پھر اس کے بعد آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ پبلک کا فیصلہ ہوگا۔
واشنگٹن کے تمام حلقے ایک بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی خودمختاری کے تحفظ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا انحصار پاکستان کی جمہوری حکومت اور فوج کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کسی واضح حکمت عملی پر اتفاق سے مشروط ہوگا۔