پیو فورم کے مذہب اور عام زندگی کے ایک سروے کے مطابق 32 فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کی معلومات کا سب سے پہلا ذریعہ میڈ ہے اور ان میں سے 48 فی صد کے خیالات مسلمانوں کے بارے میں منفی تھے جبکہ صرف 20 فی صد کے مثبت۔
اس سروے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا غیر ضروری طور پر مسلمانوں کی ایک ایسی تصویر پیش کررہا ہے جس سے عام لوگوں کے دلوں میں ان کے بارے میں خوف بیٹھ رہا ہے۔
میڈیا سائیکالوجسٹ ڈاکٹر رونا فیلڈز کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا اظہارہے کہ اس سے معاشرہ مجموعی طورپر کس قدر خوف زدہ ہے۔
اکثر مسلمانوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ امریکہ میں میڈیا چینلز کو یہودی کمیونٹی فنڈز مہیا کرتی ہے۔ میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے اور مسلمانوں کی غلط تصویرکشی کی وجہ بھی یہی ہے۔ سی اے آئی آر کے سکالر ابراہیم کوپر کا کہنا ہے کہ میں سفیر بھی رہ چکا ہوں اور میڈیا میں بھی۔ کوئی آپ سے آکر یہ نہیں کہتا کہ یہ سٹوری کریں یا نہ کریں۔ ہمیں میڈیا کلچر کو سمجھنا ہوگا اور اس میں رہ کرکام کرنا ہوگا۔ سازشوں کے نظریات کی بنیاد پر تو فیصلہ نہیں ہوگا۔
امریکہ میں آج لوگ مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں ان میں نیوز میڈیا کے ساتھ ساتھ ہالی وڈ نے بھی ایک مختلف لیکن اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں مسلمانوں ، بالخصوص عربوں کے کردار ایک ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس سے ان کا کوئی اچھا تشخص نہیں ابھرتا۔
کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز کے ابراہیم کوپر کہتے ہیں کہ اگر یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی خراب تصویرکشی نہ کی جائے تو پھر آپ خراب کام بھی نہ کریں۔