دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اعلی امریکی سفارت کار کے طورپر معاون وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر بہت متحرک رہے ہیں۔ وائس آف امیرکا نے ان سے اس بارے میں ایک خصوصی انٹرویو کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا دہشت گردی کے خطرے نے سفارت کاری کے روائتی انداز کو متاثر کیا تو ان کا کہنا تھا ۔
میرے خیال سے ہماری تمام زندگی میں تبدیلی آئی ہے۔ ائیرپورٹ پر لائین میں آپ کے جوتے اتارنے اور ظاہری حلیے سے لے کر آپ کے دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے سوچ تک سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے ۔ میرے خیال سے اس وقت ہمارے سامنے دہشت گردی سے مقابلے سے بھی زیادہ اہم کام معاشروں میں استحکام لانا ہے کیونکہ ہمیں دہشت گردی سے جنگ لڑنے میں تو اپنی قابلیت پر بھروسہ ہے لہٰذا معاشروں کو دہشت گردی سے محفوظ بنا نے کے لیے ان میں استحکام کیسے لایا جائے ہمارے نزدیک اس وقت یہ بات زیادہ اہم ہے ۔پاکستان اور افغانستان یاکسی اور جگہ کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو اس میں ایک اچھی گورنینس اور لوکل گورنمنٹ کا قیام، سڑکوں کی تعمیر ، بجلی کی فراہمی ، لوگوں کو معاشی مواقع کی فراہمی ، انہیں حکومت کی جانب سے سروسز کی فراہمی جیسے صحت تعلیم ، نوجوان نسل کو جدید دنیاکے لیے تعلیم یافتہ بنانا۔اور میرے خیال سے یہ چیزیں ویسے ہی اچھی پریکٹسز کے ذریعے پیدا ہوجاتی ہیں لیکن اب ان پر زیادہ فوکس دہشت گردی کے خطرے سے معاشروں کو بچانے کے لیے ان میں استحکام لانے کے لیے ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جانب سے شروع کی جانے والی جنگ کو مسلم دنیا کے خلاف کارروائی سمجھا جارہا ہے تو انہوں نے کہا۔
میرے خیال میں بالآخر آپ کو وہی کرنا پڑتا ہے جو کہ ضروری ہے یٰعنی ان خطرناک لوگوں سے جنگ اور وہ سب کچھ جو کہ ان تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے جو کہ ہمیں ، یوروپئینز ، پاکستانیوں ، افغانیوں ، انڈئینز یا دوسروں کو مارنے کی کوشش کررہے ہیں ۔اس کے ساتھ آپ کو ان لوگوں کی مدد بھی کرنا ہے جو کہ ماڈرن زندگیاں گزارنے کے خواہاں ہیں، جو کہ دہشت گردی کے خوف سے پاک زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اسی مقصد کے لیے ہمیں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی کہ لوگ یہ سمجھ سکیں اس کے لیے ہم کتنا سرمایہ، وقت اور کوشش صرف کر رہے ہیں ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر معاون وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر کا کہناتھا کہ میرے خیال سے لوگوں کو الزام لگانے سے پہلے حقائق کو دیکھنا چاہیئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خاتون ہمیں سترہ جولائی کے بعد ملیں ۔ہمیں کچھ علم نہیں کہ اس سے قبل وہ کہاں تھیں ۔ وہ یقینی طور سے امریکی تحویل میں نہیں تھیں۔تو حقیقت کچھ یوں ہے کہ ہمیں یہ سترہ جولائی کو ہمارے ایک علاقے سے ملیں ، جہاں ہمارے خیال میں وہ دہشت گردانہ حملے کی تیاری کر رہی تھیں ۔اور جب ہماری تحویل میں ان سے تفتیش شروع ہوئی تو انہوں نے گن اٹھا کر کسی پر گولی چلا دی ۔ ان کی خونخوار حملوں کے لیے تیاری کی ایک لمبی تاریخ ہے ۔ تو الزام لگانے سے پہلے حقائق جان لینے چاہیئیں ۔وہ ہمیں سترہ جولائی کو ملیں ۔ انہوں نے ایک امریکی کو ہلاک کرنے کی کوشش کی اور اب امریکی عدالت میں ان پر مقدمہ چلا یا جائے گا۔