Urdu ▪ وائس آف امریکہ
غیر جانبدار خبریں  |  دلچسپ معلومات

صرف متن
Search

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کے کردار کا فیصلہ تاریخ کرے گی


September 10, 2008
اس رپورٹ کی ویڈیو - Download this file (Real) video clip
اس رپورٹ کی ویڈیو - Watch (Real) video clip

President George W. Bush (file photo)

 ہر لیڈر جسے اپنے ملک کی قیادت کا اعزاز حاصل ہو اسکی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تاریخ میں اسے سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے۔ امریکی صدر جارج بش کا دورِ صدارت اختتام کے قریب ہے ۔ وائٹ ہاوس میں اپنے آٹھ سال میں اہم ترین شعبوں میں ان کی کارکردگی کے بارے میں ہم نے رپورٹس کی ایک سیریز تیار کی ہے ۔ پہلی رپورٹ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے متعلق ہے جس میں کوکب فرشوری جائزہ لے رہے ہیں کہ اپنے دورِ صدارت میں اس شعبے میں صدر بش کی کارکردگی کو کیسے یاد رکھا جائے گا۔

صدر بش امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جن کے دور میں دو ایسی جنگیں شروع ہوئیں جو ان کی صدارت کی مدت ختم ہونے تک جاری ہیں۔ پہلے افغانستان اور اسکے بعد عراق۔ یہ دونوں جنگیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شروع کی گئیں ۔ گیارہ ستمبر2001 کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد صدر بش نےدہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا۔مبصرین کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ تاریخ میں صدر بش کا سب سے نمایا ں حوالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہوگا۔ کیا یہ حوالہ مثبت ہوگا یا منفی۔ 

کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے بنجمن فریڈ مین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی بیشتر پالیسیز سے مجھے اختلاف ہے۔ انہوں نے کچھ کام تو ٹھیک کیے مثلاً دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے واچ لسٹ بنانا، ائیرپورٹس پر سیکورٹی کو بہتر بنانا، اسکے ساتھ ساتھ میں افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائی کی بھی حمائت کرتا ہوں لیکن عراق کی جنگ امریکہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس میں اربوں ڈالرز خرچ ہورہے ہیں اور ہزاروں امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ صدر بش نے ہوم لینڈ سیکورٹی کے نام پر بھی ہر سال اربوں ڈالرز خرچ کیے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمیں فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی کارکردگی کو دیگر بہت سے مبصرین بھی غلطیوں سے مبرا قرار نہیں دیتے لیکن ان کے خیال میں صدر بش کی کارکردگی اتنی بری نہیں رہی جتنی فریڈمین جیسے ماہرین قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدر بش کی پالیسیوں کے نتیجے میں القاعدہ کو نقصان پہنچانے میں ہمیں کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ان کے بہت سے بڑے لیڈرز یا تو مارے جاچکے ہیں یا پھر قید میں ہیں۔ لیکن صدر بش کے دورِ صدارت میں ہی حماس اور حزب اللہ جیسی تنظییموں نے مزید طاقت حاصل کی جو کہ خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی حمائت میں سب سے زیادہ تواتر سے دی جانے والی دلیل یہ ہے کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں گیارہ ستمبر کے بعد سے امریکہ مزید حملوں سے محفوظ رہا ہے اور ان کے ناقدین کے مطابق افغانستان کے بعد عراق پر حملے کے باعث دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی توجہ اصل ہدف سے ہٹ گئی۔ لیکن پلیٹیکا اس رائے سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری نظر میں یہ دلیل مضحکہ خیز ہے۔ ہم ایک سپر پاور ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اتنے وسائل ہونے کے باوجود ہم ایک وقت میں ایک سے زائد محاذوں پربرسرپیکار نہیں ہوسکتے تو پھر ہم سپر پاور کہلانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صدر بش کی پالیسیوں کو ایک اور تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور وہ ہے مسلم دنیا میں ان پالیسیوں کے منفی اثرات۔ مارون وائن بام کا تعلق واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسلہ یہ ہوا کہ صدر بش نے اس کو ایک عالمی جنگ کے طور پر پیش کیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ افغانستان کی جنگ کا عراق سے اور عراق کا لبنان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن صدر بش نے جس انداز میں اس جنگ کے لیے پالیسیاں بنائی ہیں ان سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہے ہوں۔ امریکہ کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ جنگ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف ہے جو ہر مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی کارکردگی کو تاریخ میں کس طرح یاد رکھا جائے گا مبصرین کے مطابق اس کا بہت حد تک انحصار مستقبل کی حکومتوں کی کارکردگی سے ان کے موازنے کے بعد معلوم ہوسکے گا۔

emailme.gif اس صفحے کو ای میل کیجیے
printerfriendly.gif قابل چھپائی صفحہ

  اہم ترین خبر

  مزید خبریں
افغانستان میں صورتِ حال ابتر ہو رہی ہے: امریکی فوجی سربراہ
خوشبو کا سفر، قنوج میں عطر کی صنعت
پارلیمان کو دی جانے والی سیکیورٹی بریفنگ پر اپوزیشن کا عدم اطمینان
عراقی سیاست دان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا: نوری المالکی
پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے پر متفق ہوگئے
دلائی لاما نئی دہلی میں کامیاب آپریشن
امریکہ دہشت گردی کی فہرست سے شمالی کوریا کے مشروط اخراج پر تیار
نیٹو افغانستان میں انسدادِ منشیات کی کارروائیوں میں حصہ لے گی
امن کا نوبیل انعام فن لینڈ کے سابق صدر مارٹی اہتساری کے نام
برما میں چینی دودھ کی مصنوعات کو مارکیٹ سے ہٹا دیا گیا
ایرانی خام تیل کی درآمد پر ادائیگیوں کو مئوخر کرنے کی پاکستانی درخواست  Video clip available
”زرداری کے دورہ چین سے دوطرفہ تعاون کو فروغ ملے گا“
بھارتی کشمیر میں بننے والے متنازعہ بگلیہار ڈیم کا افتتاح
بجلی کے نرخوں میں اضافے پر عوامی،صنعتی و تجارتی حلقوں کا شدید ردعمل
لودھراں کے قریب بس حادثے میں کم ازکم 20ہلاک
پاکستان ٹیم ٹوینٹی20کرکٹ ٹورنامنٹ جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے: شعیب ملک
گوانتانامو میں قید چینی باشندے رہائی کے مستحق ہیں: واشنگٹن پوسٹ
وزیرستان میں مدرسے پر میزائل حملہ، نو افراد ہلاک متعدد زخمی
پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس 13اکتوبرتک ملتوی
امریکہ کی دشمن نہیں ہوں: ڈاکٹر عافیہ
1988ء میں بھی بند کمرے میں پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تھا ۔۔۔ پھر پارلیمنٹ رہی نہ وزیراعظم
نوجوت سنگھ سدھو کی دھواں دھار فلمی اننگز