ہر لیڈر جسے اپنے ملک کی قیادت کا اعزاز حاصل ہو اسکی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تاریخ میں اسے سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے۔ امریکی صدر جارج بش کا دورِ صدارت اختتام کے قریب ہے ۔ وائٹ ہاوس میں اپنے آٹھ سال میں اہم ترین شعبوں میں ان کی کارکردگی کے بارے میں ہم نے رپورٹس کی ایک سیریز تیار کی ہے ۔ پہلی رپورٹ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے متعلق ہے جس میں کوکب فرشوری جائزہ لے رہے ہیں کہ اپنے دورِ صدارت میں اس شعبے میں صدر بش کی کارکردگی کو کیسے یاد رکھا جائے گا۔
صدر بش امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جن کے دور میں دو ایسی جنگیں شروع ہوئیں جو ان کی صدارت کی مدت ختم ہونے تک جاری ہیں۔ پہلے افغانستان اور اسکے بعد عراق۔ یہ دونوں جنگیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شروع کی گئیں ۔ گیارہ ستمبر2001 کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد صدر بش نےدہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا۔مبصرین کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ تاریخ میں صدر بش کا سب سے نمایا ں حوالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہوگا۔ کیا یہ حوالہ مثبت ہوگا یا منفی۔
کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے بنجمن فریڈ مین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی بیشتر پالیسیز سے مجھے اختلاف ہے۔ انہوں نے کچھ کام تو ٹھیک کیے مثلاً دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے واچ لسٹ بنانا، ائیرپورٹس پر سیکورٹی کو بہتر بنانا، اسکے ساتھ ساتھ میں افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائی کی بھی حمائت کرتا ہوں لیکن عراق کی جنگ امریکہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس میں اربوں ڈالرز خرچ ہورہے ہیں اور ہزاروں امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ صدر بش نے ہوم لینڈ سیکورٹی کے نام پر بھی ہر سال اربوں ڈالرز خرچ کیے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمیں فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی کارکردگی کو دیگر بہت سے مبصرین بھی غلطیوں سے مبرا قرار نہیں دیتے لیکن ان کے خیال میں صدر بش کی کارکردگی اتنی بری نہیں رہی جتنی فریڈمین جیسے ماہرین قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدر بش کی پالیسیوں کے نتیجے میں القاعدہ کو نقصان پہنچانے میں ہمیں کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ان کے بہت سے بڑے لیڈرز یا تو مارے جاچکے ہیں یا پھر قید میں ہیں۔ لیکن صدر بش کے دورِ صدارت میں ہی حماس اور حزب اللہ جیسی تنظییموں نے مزید طاقت حاصل کی جو کہ خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی حمائت میں سب سے زیادہ تواتر سے دی جانے والی دلیل یہ ہے کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں گیارہ ستمبر کے بعد سے امریکہ مزید حملوں سے محفوظ رہا ہے اور ان کے ناقدین کے مطابق افغانستان کے بعد عراق پر حملے کے باعث دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی توجہ اصل ہدف سے ہٹ گئی۔ لیکن پلیٹیکا اس رائے سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری نظر میں یہ دلیل مضحکہ خیز ہے۔ ہم ایک سپر پاور ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اتنے وسائل ہونے کے باوجود ہم ایک وقت میں ایک سے زائد محاذوں پربرسرپیکار نہیں ہوسکتے تو پھر ہم سپر پاور کہلانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صدر بش کی پالیسیوں کو ایک اور تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور وہ ہے مسلم دنیا میں ان پالیسیوں کے منفی اثرات۔ مارون وائن بام کا تعلق واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسلہ یہ ہوا کہ صدر بش نے اس کو ایک عالمی جنگ کے طور پر پیش کیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ افغانستان کی جنگ کا عراق سے اور عراق کا لبنان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن صدر بش نے جس انداز میں اس جنگ کے لیے پالیسیاں بنائی ہیں ان سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہے ہوں۔ امریکہ کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ جنگ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف ہے جو ہر مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر بش کی کارکردگی کو تاریخ میں کس طرح یاد رکھا جائے گا مبصرین کے مطابق اس کا بہت حد تک انحصار مستقبل کی حکومتوں کی کارکردگی سے ان کے موازنے کے بعد معلوم ہوسکے گا۔