گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کی تاریخ امریکہ میں دہشت گردی کے بد ترین واقعے کے لئے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جس نے امریکی حکومت اور عوام کے اعصاب کو بالکل ہلا کر رکھ دیا تھا۔ گیارہ ستمبر کے حٕملوں کی کوریج کے دوران امریکی میڈیا کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور کئی سبق تھے جو امریکی نیوز میڈیا نے سیکھے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کی وہ تصویریں تو دنیا نے دیکھیں جو میڈیا نے دنیا کو دکھائیں مگر اس تصویر کا ایک رخ اور بھی تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نارتھ ٹاور پر 6براڈ کاسٹ انجنئیرز بھی کام کر رہے تھے ،جنہیں اس حملے میں اپنی جان سے جانا پڑا۔ گیارہ ستمبر کو ہلاک ہونے والے افراد میں ایک صحافی بھی شامل تھا۔
گیارہ ستمبر 2001کوامریکی حکومت اور عوام دم بخود اپنے اپنے ٹیلی ویژن سیٹس کے سامنے بیٹھے وہ مناظر دیکھ رہے تھے ،جن کے حقیقی ہونے کا کسی کو یقین نہیں تھا۔ میڈیا کے ماہرین کے مطابق 9/11آج کے دور کی سب سے بڑی نیوز سٹوری تھی۔ اس روز امریکی نیوز میڈیا اپنی تاریخ کے ایک ایسے چیلنج کے روبرو ہوا ،جس کے بارے میں پہلے سے کبھی کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔
واشنگٹن کے نیوزیم کی نائن الیون گیلری کی ایگزیبٹ ڈائریکٹر کیتھی ٹروسٹ کہتی ہیں کہ نیوز میڈیا کو اس روز بہت سے زبردست چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ سیل فونز کام نہیں کر رہے تھے ،سیل لائنز بند ہو گئ تھیں۔ لینڈ لائنز اور انٹر نیٹ کام نہیں کر رہا تھا۔ شہراور ملک بھر کی تمام ٹرین , روڈ اور ائیر ٹریفک بندکر دی گئی تھی۔ پریس کے لئے وسائل کے لحاظ سے یہ ایک بہہت ہی مشکل سٹوری تھی۔ صحافیوں کو متاثرہ علاقے تک رسائی چاہئے تھی مگر پولیس ،آگ بجھانے والا اور دیگر امدادی عملہ۔ رپورٹرز کو زیادہ آگے جانے نہیں دے رہا تھا۔
کیتھی ٹراسٹ کہتی ہیں کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو اس روزسیکنڈوں کے وقفے میں کئی اخلاقی فیصلے لینے تھے۔ اس روزصحافت کو اپنے ہی بنائے ہوئے اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کام کرنا پڑا۔ اس روزجو واقعات رپورٹ کئے گئے۔ وہ صحافتی اصولوں کا امتحان تھا۔ لوگ عمارت سے چھلانگیں لگا رہے تھے۔ نیچے گر رہے تھے۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں آپ کو فیصلہ کرنا تھا کہ ان کی تصویریں لیں انہیں بھیجیں اور پرنٹ کریں۔ صحافت کے لئے یہ بڑے مشکل فیصلے تھے۔ جذباتی چیلنجز بھی اپنی جگہ تھے۔ بہت سے رپورٹرز نے کہا کہ وہ اس روز صحافی ہونے کے ساتھ انسان بھی تھے۔ اور انہیں سٹوری رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات سے بھی نبرد آذما ہونا تھا۔
نیوزیم کی نائن ون ون گیلری میں وہ براڈ کاسٹ کمیونیکیشن ٹاور موجود ہے جو گیارہ ستمبر 2001کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور پر نصب تھا۔ اور نیو یارک شہر کو براڈ کاسٹ مہیا کرنے کاذمہ دار تھا۔ اور اس پر ہلاک ہونے والے براڈ کاسٹ انجنئیرز کا تعلق نیو یارک کے مقامی نیوز چینلز سے تھا۔ یہ ٹاور کی حالت بے حد خستہ ہے مگرجس دہشت گردی نے لوہے اور سٹیل کے سٹرکچر پگھلا دیئے ، وہ اس براڈ کاسٹ ٹاور کا نشان نہیں مٹا سکی۔ کیتھی ٹروسٹ اس ٹاور کو ایک طاقتور علامت قرار دیتی ہیں جو مڑ چکا ہے۔ ناکارہ ہو چکا ہے مگر اتنی بلندی سے گرنے کے باوجود بھی قائم ہے۔ اوراس دن کے خوفناک واقعے کی کہانی سنارہا ہے۔
نیوزیم کی نائن ون ون گیلری میں گیارہ ستمبر کو اغوا ہونے والے یونایٹٹد ائیر لائن کے اس جہاز کا ٹکڑا رکھا گیا ہے جسے پینسلوانیا میں گرا دیا گیا تھا۔ پینٹا گون کی عمارت سے گرنے والا یہ ٹکڑا بھی اسی واقعے کی یادگار ہے اور یہ ہے فری لانس فو ٹو گرافر بل بگرٹ کی یاد میں قائم کیا گیا کارنر۔ جہاں بگرٹ کی زندگی کی آخری نیوز سٹوری۔ نائن ون ون کی جھلکیاں دستاویزی شکل میں محفوظ ہیں۔
بل بگرٹ کی موت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا شمالی ٹاور کے نیچے دب کر ہوئی۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے پانچ دن بعدملبے سے ان کی لاش اور کیمرہ تلاش کیا جا سکا۔ جس میں آخری تصویر اس وقت کھینچی گئی ہے جب آخری ٹاور گرنے سے پہلے گرد کے بادل چھا رہے تھے۔ بل کے ساتھی فو ٹو گرافر چپ ایسٹ کا کہنا ہے کہ بل آگے بڑھتا جا رہا تھا اور تصویریں کھینچتا جا رہا تھا اور آخر وہ اس پل تک پہنچا جو شمالی ٹاور کی لابی کو دوسرے ٹاور سے ملاتا تھا۔ اس نے وہ تصویریں لیں۔ جو دوسرا ٹاور گرنے سےصرف آدھ گھنٹہ پہلے تک ہی لی جا سکتی تھیں۔ آخری فریم بالکل وہی تھا۔ اور اس پر ٹائم کوڈ بھی بالکل اسی منٹ کا ہے۔
رننگ ٹوورڈز ڈینجر،نامی ڈاکو مینٹری بھی نیوزیم کی نائن ون ون گیلری میں دکھائی جا رہی ہے جس میں گیارہ ستمبر کے واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے اس روز کی یادداشتوں اور چیلنجز کو دوہرا یا ہے۔ کیتھی ٹراسٹ کے مطابق یہ گیارہ ستمبر کے واقعات کا نہایت جذباتی کر دینے والا ریکارڈ ہے۔
کیتھی ٹراسٹ کہتی ہیں کہ عام طور پر صحافیوں پر صورتھال کا فائدہ اٹھانے اور سنسنی پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں سب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ گیارہ ستمبر کو صحافیوں نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے کئی درجے اوپر اٹھ کر کام کیا۔ ٹیلی ویژن چینلز نے بغیر کسی وقفے کے مسلسل چار دن تک اپنی نشریات جاری رکھیں۔ یہ تاریخ میں کسی نیوز ایونٹ کی مسلسل کوریج کا سب سے طویل تجربہ تھا۔ لوگ مقابلے بازی بھول کر ایک جذبے کے ساتھ وہ خبر مہیا کر رہے تھے جو دنیا جاننا چاہتی تھی تاکہ وہ صورتحال سے باخبر ہو سکیں۔ یہ فلم اس کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔
میڈیا نے گیارہ ستمبر کے واقعے سے کیا سبق سیکھے ،اس حوالے سے کیتھی ٹراسٹ کہتی ہیں کہ مییڈیا نے سیکھا کہ انہیں کسی ایسے حملے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے جو کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو۔
بہت سے اخبارات اور ٹیلی ویژں چینلز نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے منصوبے بنائے کہ مستقبل میں ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کیا کیا جائے گا۔ میرے خیال میں انہوں نے کئی اخلاقی سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی بھی کوشش کی۔ کیونکہ ایک صحافی اس سٹوری کا پیچھا کرتے ہوئے اپنی جان سے گیا۔ کئی صحافی زخمی بھی ہوئے۔ ،اس لئے اس واقعے کے بعد اخبارات کے نیوز رومز میں بڑی بحث ہوئی کہ گیارہ ستمبر جیسی کسی خبر کا پیچھا کرتے ہوئے صحافی کتنا آگے تک جا سکتے ہیں ،کس حد تک اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا جائز ہے۔
بارہ ستمبر 2001کو امریکہ کے ہر اخبار نےتو گیارہ ستمبر کی سٹوری شائع کی ہی مگر دنیا کے تمام دوسرے ملکوں کے اخبارات نے بھی تباہی کے بیان کے لئے اپنے فرنٹ پیج کو ہی منتخب کیا۔ نیوزیم کی نائن الیون گیلری میں جن 137ملکوں کے اخبارات کے فرنٹ پیجز موجود ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
بظاہر آسمان تک اونچی اس دیوار پر دنیا بھر سے شائع ہونے والے اخبارات لگائے گئے ہیں جو گیارہ ستمبر کے حمٕلوں کے اگلے روز شائع ہوئے۔ مگر یہ دیوار اس فاصلے اور دوری کو بھی ظاہر کرتی ہے جو گیارہ سمتبر کے حملوں کے بعد امریکہ اور باقی دنیا کے درمیان پیدا ہوئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی نے درست سمت اختیار کی۔ کیا ان واقعات کے ذمہ داروں کو سزا دینے لئے ان کے ملکوں پر جوابی حملے کرنا درست تھا ؟
جرنلزم کی طالب علم ویرا بونڈ کہتی ہیں کہ یہ ایک اچھا سوال ہے۔ مگر مجھے معلوم نہیں کہ میں کبھی اس کا صحیح جواب جان سکوں گی۔ جنگ اب بھی جاری ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے وہاں جانے کا کوئی فائدہ ہوا یا نہیں۔ میرے خیال میں اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ مگر میں سمجھتی ہوں کہ ہم نے وہ کیا جو ہمیں اس وقت سب سے بہتر لگا۔
ایک اور طالب علم کیری ایوانگو کا کہنا ہے کہ ذاتی طور پر میں ان حملوں کو درست نہیں سمجھتی۔ میرے خیال میں ان حملوں کے لئے کچھ ملک نہیں کچھ افراد زمہ دار تھے اور میرا خیال ہے کہ اب ہم معصوم انسانوں کی جانیں لے کر ویسی ہی تباہی پھیلا رہے ہیں۔